جیسے ہی گورنمنٹس نے کرنسی کے نظام کو سنبھالا تو انہوں نے کرنسی نوٹس بہت زیادہ تعداد میں چھاپنے شروع کردئیے ۔ جس سے افراطِ زر نے دنیا کو جکڑ لیا ۔ چنانچہ 1816ء میں انگلینڈ نے سب سے پہلے گولڈ سٹینڈرڈ (GOLD STANDARD) کو اپنایا تاکہ افراطِ زر پر قابو پایا جاسکے اور جس کے پاس جتنا گولڈ ہو وہ اتنی ہی کرنسی نوٹ چھاپ سکے ۔ کرنسی نوٹ سے لین دین تو صدیوں سے ہورہی تھی لیکن کرنسی نوٹ کے پیچھے گولڈ کی گارنٹی کا سلسلہ اب شروع ہوا ۔ 1930ء کی معاشی ابتری کے بعد دنیا نے آہستہ آہستہ گولڈ سٹینڈرڈ ختم کرنا شروع کردیا ۔ 1970ء میں امریکی صدر نیکسن نے ڈالر کی سونے سے تبادلہ کرنے پر دنیا کے ساتھ پابندی لگادی ۔ اور امریکی کرنسی نوٹ پر “حامل ہذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا” کی بجائے ” ہم خدا پر بھروسہ کرتے ہیں ” لکھ دیا۔ اس وقت دنیا کی کرنسی کے پیچھے سونے کے ذخائر نہیں ہیں بلکہ دنیا کی کرنسی حکومتی ضمانت کے ساتھ چل رہی ہے ۔

جیسے کہ میں نے  پیسہ کی کہانی اور اس آرٹیکل میں بتایا کہ لوگوں نے لین دین کے لئیے سب سے پہلے بارٹر سسٹم اپنایا جس سے قبولیت اور کافی حد تک پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ پھر سونے ، چاندی اور مختلف دھاتوں کے سکوں میں ملاوٹ ہونے کی وجہ سے اس سے بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے بعد لوگوں نے رائی کے پتھر کو بطور زر کا ڈیپازٹ والٹ (DEPOSIT WALLET) کے طور پر استعمال کیا اور دو ہزار سال تک چھوٹے چھوٹے پتھروں کے عوض تجارت کرتے رہے ۔ پھر کاغذی کرنسی کا اجراء ہوا تو اس میں حکومتیں اپنی من مانی سے زائد کرنسی چھاپ لیتی جس سے افراطِ زر میں اضافہ ہوتا تو عام لوگوں کو مہنگائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ پھر حکومتوں نے کاغذی کرنسی کے بدلے گولڈ کو ریزرو کے طور پر رکھنا شروع کردیا جو کہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا ۔ آج دنیا کے کرنسی نوٹس حکومتی ضمانت پر چل رہے ہیں

انسانوں کو کسی ایسے میڈیم آف ایکسچینج (MEDIUM OF EXCHANGE)کی تلاش ہے جس سے ہم باآسانی خرید و فروخت کرسکیں ۔ جسے تقسیم کرنا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان ہو جیسے ہمیں بارٹر سسٹم میں مشکلات کا سامنا تھا ۔ جس میں کسی طرح کی ملاوٹ نہ ہوسکے جیسے سونے چاندی میں ملاوٹ کی جاتی تھی ۔ جو کاغذی کرنسی کی طرح حکومتیں اپنی من مرضی سے نہ چھاپ سکیں یعنی اسکی سپلائی محدود ہو ۔ جس پر لوگوں کا اعتماد ہو جیسے رائی کے پتھر کے عوض لوگ دو ہزار سال تک لین دین کرتے رہے جیسے کاغذی کرنسی کے عوض آج بھی لین دین ہوتا ہے ۔ اگر ان کاغذی کرنسی سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جائے تو اسکی قدر ردی کے برابر ہوجائے گی ۔

اگر ہم بٹ کوائن کی طرف دیکھیں تو یہ کسی مرکزی ہاتھوں کی بجائے مکمل طور پر ڈی سنٹرلائزڈ (DECENTRALIZED)ہے یعنی اسکی محدود سپلائی کو نہ تو کوئی بڑھا سکتا ہے نہ کوئی کم کرسکتا ہے ۔ اسے ہم بٹ کوائن کی سیکرسٹی (SCARCITY) کہہ سکتے ہیں ۔ بٹ کوائن کی تمام ٹرانزیکشنز کا ریکارڈ پبلک لیجر (PUBLIC LEDGER)میں ہوتا ہے جسے کرپٹو گرافی (CRYPTOGRAPHY)کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے جس میں نہ تو کوئی رد بدل کرسکتا ہے ۔ کیونکہ ایسا کرنے پر نیٹ ورک میں موجود ہر نوڈ (NODE) کے پاس مکمل ریکارڈ کی کاپی ہوتی ہے جو کہ اس ٹرانزیکشن کو مسترد کردیں گئے ۔ اس سے ہم بٹ کوائن کے نیٹ ورک پر اعتماد کرسکتے ہیں یعنی کسی کرنسی کی مقبولیت کے لئیے اس پر بلیو سسٹم (BELIEF SYSTEM) ہونا چاہیے ۔ بٹ کوائن کو دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں ٹرانسفر کرنا انتہائی آسان ہے اور فیس بھی انتہائی کم ہے کاغذی کرنسی کو چوری ہوجانے کے ڈر سے بینکس میں محفوظ رکھنا پڑتا ہے جس سے ہمارا اکاؤنٹ بینک یا گورنمنٹ کسی بھی وقت فریز کرسکتی ہے جس سے ہم کسی بھی وقت اپنی دولت سے محروم ہوجاتے ہیں بھاری ٹرانزیکشن کے لئیے بھی اجازت لینا پڑتی ہے لیکن بٹ کوائن کے ساتھ ایسا نہیں ہے بٹ کوائن ہمارے ڈیجیٹل والٹ میں ہمارے ہاتھوں میں محفوظ ہوتا ہے اور بڑی سے بڑی ٹرانزیکشن بھی دنیا کے کسی بھی کونے میں ٹرانسفر کرسکتے ہیں ۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے گولڈ کو سٹور آف ویلیو (STORE OF VALUE) کی حیثیت حاصل ہوئی بالکل ایسے ہی بٹ کوائن سٹور آف ویلیو بن چکا ہے جیسے کاغذی کرنسی آج ہر ملک میں لیگل ٹینڈر (LEGAL TENDER)ہے بالکل ایسے ہی بٹ کوائن لیگل ٹینڈر بننے جارہا ہے سنٹرل امریکا کے ایک ملک ایل سلواڈور نے بٹ کوائن کو لیگل ٹینڈر بنا کر تاریخ میں اپنا نام لکھوا لیا ہے ۔ جیسے کبھی گولڈ کو ریزرو کے طور پر رکھا جاتا تھا بالکل ایسے ہی دنیا بٹ کوائن کو ریزرو کے طور پر رکھنے جارہی ہے۔